جنگ، سائی اوپس اور نفسیاتی عِلتیں – برزکوہی


جنگ بذات خود جسمانی سے زیادہ ایک نفسیاتی وار ہوتا ہے، طویل اور تھکا دینے والی جنگی ماحول میں فریقین کا ہر وقت کوشش ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو نفسیاتی شکست سے دوچار کردیں۔ یہ نفسیاتی اثرات صرف زیر دست قوم کے حصے میں ہی نہیں آتے بلکہ قابض و جارح بھی ان کے لپیٹ میں رہتا ہے۔



جنگ جسمانی اور جذباتی طور پر جنگجو اور غیر جنگجو دونوں پر منفی اثر ڈالتی ہے۔ موت، چوٹ، جنسی تشدد، غذائی قلت، بیماری، اور معذوری جیسے مسائل انسانی نفسیاتی پر دوران جنگ گہرے اثر ڈالتے ہیں۔ جنگ کے جسمانی نتائج کی دھمکی، جبکہ پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر، افسردگی اور اضطراب ان میں سے کچھ جذباتی اثرات ہیں۔


قومی آزادی کی جنگ میں کمفرٹ زون قومی جہدکاروں کے لیے ایک ناسور مرض ہے، جس کی وجہ سے ایسے نفسیاتی امراض جنم لیتے ہیں، جوجہدوجہد کے لیے زہر قاتل بن جاتے ہیں۔ جو بھی تنظیم یا تحریک خود اگر اپنے ہی لوگوں کو کمفرٹ زون میں دھکیل دیتی ہے تو وہ لاشعوری بنیاد پر اپنے ہاتھوں سے اپنی تحریک کے پیروں پر کلہاڑی مارتی ہے۔



اگر بلوچ تحریک پر ایک نظر دوڑائی جائے تو مذکورہ ذہنی الجھنیں، آپ کو محاذ پر برسرِپیکار کسی جہدکار میں نا ہونے کے برابر ملیں گے، لیکن وہ جہدکار جو محاذ کو ترک کرکے بیرون ممالک منتقل ہوگئے ہیں، ان میں ڈپریشن، انزائٹی اور پی ٹی ایس ڈی کی شدید شکایات پائی جاتی ہے



 نفسیاتی جنگ میں ذہنی یا جذباتی قسم کی لڑائی شامل ہوتی ہے۔ نفسیاتی جنگ مخصوص اجزائے ترکیبی کو استعمال کرتی ہے، جیسے کے پروپیگنڈہ، دھمکی آمیز بیانات اور دشمن کو نفسیاتی الجھنوں و امراض سے دوچار کرنا۔ ان کا مقصد دشمن کی عقلیت اور اعمال کو بری طرح متاثر کرنا ہوتا ہے۔ نفسیاتی جنگ کے متعدد مطلوبہ اثرات میں دماغ اور جسم دونوں پر دشمن کا کنٹرول، دباؤ، یا کمزور کرنا شامل ہو سکتا ہے۔